سوال: درج ذیل اشعار کی تشریح کیجیے : ”دعا میں ذکر کیوں ہو مدعا کا کہ یہ شیوہ نہیں اہل رضا کا“
Lost your password? Please enter your email address. You will receive a link and will create a new password via email.
اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور اردو ادب کے متعلق ہر طرح کے سوالات پوچھنے کے لئے بزمِ اُردو پر لاگ ان کریں اور اردو زبان کو ڈیجیٹالائز کرنے میں اپنا حصہ ڈالیں۔
Create A New Account
Sajid
اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں لیکن ہماری اس دعا میں کوئی خواہش کوئی فرمائش نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے جو عطا کیا ہے ہمیں اس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ شاعر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بہت ساری چیزیں طلب کریں بلکہ اہلِ رضا تو اللہ تعالیٰ کے شکر گزار رہتے ہیں اور اس کا ہمیشہ شکر ادا کرتے رہتے ہیں۔
گنہ گارو ! چلو ، عفو الٰہی
بہت مشتاق ہے عرض خطا کا
اس شعر میں شاعر گنہ گاروں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ لوگوں چلو ہم سب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔ بیشک اس رب کی رحمت بہت وسیع ہے اور وہ عطا کرنے والا اور خطا معاف کرنے والا ہے، تو ہم سب اس کے پاس چل کر اس سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔